سورة النحل - آیت 89

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ (آنے والا) دن جب ہم ہر ایک امت میں ایک گواہ (یعنی پیغمبر) اٹھا کھڑا کریں گے جو انہی میں سے ہوگا (اور جو بتلائے گا کہ کس طرحح اس نے پیام حق پہنچایا اور کس طرح لوگوں نے اس کا جواب دی) اور (اے پیغمبر) تجھے ان لوگوں کے لیے (جو آج تجھے جھٹلا رہے ہیں) گواہ بنائیں گے (یہی بات ہے کہ) ہم نے تجھ پر الکتاب نازل کی (دین کی) تمام باتیں بیان کرنے کے لیے اور اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے رہنمائی ہو اور رحمت اور خوشخبری۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر امت میں ایک گواہ کھڑا کرے گا۔ ﴿فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ﴾ یہاں بھی گواہ کھڑا کرنے کا ذکر کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گواہ ہونے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ ﴾ ” اور لائیں گے ہم آپ کو ان پر گواہ“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے خیر و شر پر گواہ ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال عدل ہے کہ ہر رسول اپنی امت پر گواہی دے گا کیونکہ وہ اپنی امت کے اعمال کے بارے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ اطلاع رکھتا ہے، وہ اتنا عادل اور اپنی امت کے بارے میں اتنا شفیق ہوتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں صرف اسی چیز کی گواہی دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تالیٰ کا یہ قول ہے : ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ﴾ (البقرۃ: 2؍143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہی دیں۔“ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ ﴾ (النساء :4؍41۔42) ” اس وقت ان کا کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر آپ کو گواہ بنائیں گے۔ اس روز کافر اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ زمین میں سما جائیں اور ان پر مٹی برابر کردی جائے۔ “ ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ  ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ پر کتاب، کھلا بیان ہر چیز کا“ دین کے اصول و فروع، دنیا و آخرت کے احکام اور ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہیں اس کتاب میں واضح الفاظ و معانی کے ساتھ مکمل طور پر بیان کردی گئی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کریم میں بڑے بڑے امور کو بتکرار بیان کرتا ہے جن کے بارے میں قلب کو ہر وقت اور ہر گھڑی تکرار اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا مختلف عبارات اور متنوع دلائل کے ساتھ اعادہ کرتا رہتا ہے تاکہ وہ دلوں کی گہرائی میں اتر کر اچھی طرح جاگزیں ہوجائیں۔ پس یہ دل میں جس طرح راسخ ہوتے ہیں اس کے مطابق خیر و شر کی صورت میں اثرات حاصل ہوتے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نہایت قلیل اور واضح الفاظ میں بہت سے معانی جمع کردیتا ہے، الفاظ ان معانی کے لئے بنیاد اور اساس کا کام دیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے بعد آنے والی آیت اور اس میں جو اوامرو نواہی ہیں، جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اس پر غو ر کریں تو یہ نکتہ واضح ہوجائے گا۔ چونکہ یہ قرآن عظیم ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اس لئے تمام انسانوں پر حجت ہے۔ اس کے خلاف ظالموں کی حجت منقطع ہوگئی۔ مسلمانوں نے اس سے استفادہ کیا اور وہ ان کے لئے راہ نما بن گیا۔ وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان کے لئے رحمت ہے جس کے ذریعے سے وہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے جو وہ علم نافع اور علم صالح حاصل کرتے ہیں، وہی ہدایت ہے۔ دنیا و آخرت کا جو ثواب اس پر مترتب ہوتا ہے، مثلاً اصلاح قلب، اطمینان قلب اور نیکی وغیرہ، وہی رحمت ہے۔ قرآن عظیم کے معانی کے مطابق، جو کہ بلند ترین معانی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تربیت کے بغیر عقل کی تکمیل نہیں ہوتی۔۔۔۔ اس کے معانی کے مطابق تربیت کے بغیر اعمال کریمہ، اخلاق فاضلہ، رزق کشادہ، قول و فعل کے ذریعے سے دشمنوں پر فتح و نصرت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی عزت و اکرام والی جنت حاصل نہیں ہوتی جس میں ہمیشہ رہنے والی ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کو رب رحیم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔