خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اس نے انسان کو نطفہ (کے ایک قطرہ) سے پیدا کیا، پھر دیکھو وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا وجود ہوگیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا ذکر کرنے کے بعد زمین و آسمان کی مخلوق کا ذکر فرمایا اور اشرف المخلوقات یعنی انسان سے اس کی ابتدا کی، چنانچہ فرمایا : ﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ﴾ ” اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا“ اللہ تعالیٰ اس نطفہ کی تدبیر کرتا رہا اور اس کو نشو و نما دیتا رہا یہاں تک کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کامل اعضاء کے ساتھ کامل انسان بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بے شمار نعمتوں سے نوازا یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہوگئی تو اپنے آپ پر فخر کرنے لگا اور خودپسندی کا شکار ہوگیا۔ فرمایا : ﴿ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ﴾ ” پھر جبھی ہوگیا وہ علانیہ جھگڑا کرنے والا۔“ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ اپنے رب کی مخالفت کرنے لگا، اس کا انکار کرنے لگا، اس کے انبیاء و رسل سے جھگڑنے لگا اور اس کی آیات کی تکذیب کرنے لگا۔ اس نے اپنی تخلیق کے اولین مراحل اور اس کی نعمتوں کو فراموش کردیا اور ان نعمتوں کو نافرمانی میں استعمال کیا اور اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو نطفہ (بوند) سے پیدا کیا، پھر اس کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ وہ ایک کلام کرنے والا، ذہین، صاحب رائے، عقل مند انسان بن گیا تو جھگڑے اور بحث کرنے لگ گیا۔ پس بندے کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا۔ جس حالت تک پہنچنا کسی طرح بھی اس کی قدرت اور اختیار میں نہ تھا۔