وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ
ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کسی مصلحت ہی سے بنایا ہے (بے کار کو نہیں بنایا ہے) اور یقینا مقررہ وقت آنے والا ہے۔ پس (اے پیغبر) چاہیے کہ حسن و خوبی کے ساتھ (مخالفوں کی مخالفتوں سے) درگزر کرو۔
یعنی ہم نے زمین و آسمان کو عبث اور باطل پیدا نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن سمجھتے ہیں۔ ﴿إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ﴾ بلکہ ہم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے نیز زمین و آسمان اللہ کی قدرت کاملہ، بے پایاں رحمت، حکمت اور اس کے علم محیط پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ﴾ ” اور قیامت بے شک آنے والی ہے“ اور اس گھڑی کے آنے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ ابتدا میں زمین و آسمان کی تخلیق، مخلوقات کو دوسری مرتبہ پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل ہے۔ ﴿فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴾’’پس درگزر کریں اچھی طرح درگزر کرنا“ یعنی ان سے اس طرح درگزر کیجیے کہ اس میں کسی قسم کی اذیت نہ ہو بلکہ اس کے برعکس برائی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیے، اس کی تقصیر کو بخش دیجیے، تاکہ آپ اپنے رب سے بہت زیادہ اجرو ثواب حاصل کریں۔ کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ کے جو معانی میں نے یہاں ذکر کئے ہیں مجھ پر اس سے بہتر معانی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ ہے نہایت اچھے طریقے سے درگزر کرنا، یعنی وہ اچھا طریقہ جو بغض، کینہ اور قولی و فعلی اذیت سے پاک ہو۔ اس طرح درگزر کرنا نہ ہو جو احسن طریقے سے نہیں ہوتا اور یہ ایسا درگزر کرنا ہے جو صحیح مقام پر نہ ہو۔ اس لئے جہاں سزا دینے کا تقاضا ہو وہاں عفو اور درگزر سے کام نہ لیا جائے، مثلاً زیادتی کرنے والے ظالموں کو سزا دینا، جن کو سزا کے سوا کوئی اور طریقہ درست نہیں کرسکتا۔۔۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کا معنی۔