وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔
جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انہوں نے دو باتوں کو اکٹھا کردیا۔ (١) فساد فی الارض کا ارتکاب (2) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انہوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آجانے کی زیادہ امید ہے۔ چونکہ ان کے قول ﴿إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ ” بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انہی پر پلٹ دیا۔