وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور ارباب دانش ! قصاص کے حکم میں (اگرچہ بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کرلی گئی ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے) تمہارے لیے زندگی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے تاکہ تم برائیوں سے بچو
پھر اللہ تعالیٰ قصاص کی مشروعیت میں پنہاں عظیم حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ﴾ ” اور تمہارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔“ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہوجاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے، کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہوگا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کردیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص (قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر (برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑابخشنے والا ہے۔ ﴿ حَیٰوۃٌ﴾ کونکرہ استعمال کرنا تکثیر اور تعظیم کے لیے ہے اور چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف لوگ جان سکتے ہیں جو عقل کامل کے مالک ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی بجائے انہی لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام میں پوشیدہ حکمتوں، اس کے کمال پر دلالت کرنے والی مصلحتوں، اس کی کامل حمد و حکمت اور عدل و رحمت واسعہ میں تدبر کے لیے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لائیں اور جو کوئی یہ عمل کرتا ہے وہ اس مدح کا مستحق ہے کہ وہ ان عقل مند لوگوں میں سے ہے جن کو اس خطاب میں مخاطب کیا گیا ہے اور جن کو رب ارباب نے پکارا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہی فضیلت اور شرف کافی ہے۔ فرمایا :﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾” تاکہ تم متقی بن جاؤ“ اور یہ تقویٰ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو اور اس کے دین و شریعت کے بڑے بڑے اسرار، انوکھی حکمتوں اور بلند مرتبہ نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، اس کی نافرمانیوں کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے انہیں ترک کر دے۔ تب وہ اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اسے اہل تقویٰ میں شمار کیا جائے۔