سورة ابراھیم - آیت 42

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے (یعنی روسائے مکہ کے کاموں سے) دراصل اللہ نے ان کا معاملہ اس دن تک کے لیے پیچھے ڈال دیا ہے جب (نتائج عمل کی ہلاکتیں ظہور میں آئیں گی، اس دن ان لوگوں کا یہ حال ہوگا، کہ شدت خوف وحیرت سے) آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ظالموں کے لئے سخت وعید اور مظلوموں کے لئے تسلی ہے، فرمایا : ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ﴾ ” اور ہرگز مت خیال کریں کہ اللہ ان کاموں سے بے خبر ہے جو ظالم کرتے ہیں“ اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دی ہے اور ان کو نہایت فراوانی سے رزق عطا کیا اور ان کو چھوڑ دیا کہ وہ نہایت اطمینان اور امن کے ساتھ چلیں پھریں۔ پس یہ مہلت اور رزق کی فراوانی ان کے حسن حال پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں میں اضافہ ہوجائے یہاں تک کہ جب وہ اسے پکڑ لیتا ہے تو پھر وہ چھوٹ نہیں سکتا۔ ﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾(سورۃ ھود : 11؍ 102 ” اور اسی طرح ہوتی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی بستی کو اس کے ظلم کے سبب سے پکڑتا ہے، بے شک اس کی پکڑ بڑی سخت اور المناک ہوتی ہے“۔ یہاں ظلم سے مراد وہ ظلم بھی ہے جو بندے اور اس کے رب کے مابین ہے اور وہ ظلم بھی ہے جو بندہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر روارکھتا ہے۔ ﴿إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ﴾ ” ان کو تو اس دن کے لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ کھلی رہ جائیں گی اس میں آنکھیں“ یعنی ہول اور دہشت کی وجہ سے آنکھیں ادھر ادھر دیکھ نہیں سکیں گی، کھلی کی کھلی رہ جائیں گی