رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
اے ہم سب کے پروردگار ! (تو دیکھ رہا ہے کہ) ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لاکر بسائی ہے، اور خدایا ! اس لیے بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں (تاکہ یہ محترم گھر عبادت گزاران توحید سے خالی نہ رہے) پس تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کردے تاکہ (بے آب و گیاہ ریگستان میں رہ کر بھی ضرورت معیشت سے محروم نہ رہیں اور) تیرے شکر گزار ہوں۔
﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ﴾ ” اے رب ! میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو، ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں، تیرے محترم گھر کے پاس“ یعنی آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہما التسلیم کو شام سے لاکر مکہ مکرمہ کی سرزمین میں بسایا تھا، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام دودھ پیتے تھے۔ اس وقت یہ وادی بالکل سنسان تھی اور اس میں کوئی آبادی نہ تھی۔ جب آپ نے ماں بیٹے کو اس وادی میں آباد کردیا تو اس وقت یہ دعا مانگی : ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي﴾ یعنی میں نے اپنی تمام اولاد کو نہیں بلکہ اپنی کچھ اولاد کو یہاں لا بسایا ہے۔ کیونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام شام میں تھے اسی طرح ان کے دیگر بیٹے بھی شام میں آباد تھے۔ وادی مکہ میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کو آباد کیا۔ ﴿بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ﴾ ” ایسی وادی میں جہاں کھیتی نہیں“ کیونکہ ارض مکہ بے آب وگیاہ تھی ﴿ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ ” اے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں“ یعنی ان کو موحد اور نماز قائم کرنے والے بناکر کیونکہ نماز سب سے زیادہ خصوصیت کی حامل اور سب سے افضل عبادت ہے اور جس نے نماز کو قائم کرلیا، وہ دین کو قائم کرنے والا ہوگیا۔ ﴿فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ﴾ ” پس کردے کچھ لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف“ یعنی لوگ ان سے محبت کریں اور اس جگہ سے محبت کریں جہاں یہ آباد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے، آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو دین اسلام اور ملت ابراہیم کی طرف دعوت دی انہوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور نماز قائم کرنے والے بن گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی زیارت کو فرض قرار دیا جس کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی اولاد آباد تھی اور اس میں ایک ایسا بھید پنہاں رکھا جو دلوں کے لئے کشش رکھتا ہے، دل اس گھر کی زیارت کا قصد کرتے ہیں اور اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے بلکہ بندۂ مومن جس قدر زیادہ اس گھر کی زیارت کرتا ہے اس کی آتش شوق اسی قدر زیادہ بھڑکتی ہے اور اس کا سرنہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف مضاف کیا ہے۔ ﴿وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ﴾ ” اور ان کو روزی دے پھلوں سے، شاید وہ شکر کریں“ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت خلیل علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور ہر قسم کا پھل اس ارض پاک میں پہنچنے لگا آپ دیکھیں گے کہ مکہ مشرفہ میں ہر وقت ہرقسم کا پھل بافراط ملتا ہے اور رزق ہر طرف سے مکہ مکرمہ کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔