رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پروردگار ! ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو راہ حق سے بھٹکا دیا ہے، تو جو میرے پیچھے چلا (اور بت پرستی کی گمراہی میں نہ پڑا) وہ میرا ہوا، جس نے میرے طریقہ سے نافرمانی کی (اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں اور) تو بخشنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔
پھر آپ نے اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں ان خدشات کا ذکر فرمایا جو انہیں اکثر لوگوں کے ان بتوں کی عبادت کے فتنے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لاحق ہوئے، اس لئے انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ” اے پروردگار ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔“ یعنی ان کے سبب سے بہت سے لوگ گمراہ ہوئے۔ ﴿ فَمَن تَبِعَنِي﴾ ” پس جس نے میری اتباع کی“ یعنی توحید الٰہی اور اخلاص للہ میں جس نے میری پیروی کی۔ ﴿فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ﴾ ’۔ تو وہ میرا ہے“ یعنی کامل موافقت کی وجہ سے وہ مجھ سے ہے، جو کوئی جس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے، وہ اسی قوم سے ملحق شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور جس نے میری نافرمانی کی، تو تو بہت بخشنے والا مہربان ہے“ یہ حضرت خلیل علیہ السلام کی شفقت ہے کہ انہوں نے گناہ گاروں کے لئے بخشش اور رحمت کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ صرف اسے عذاب دے گا جو سرکشی اختیار کرتا ہے۔