سورة ابراھیم - آیت 34

وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

غرض کہ تمہیں (اپنی زندگی کی کاربراریوں اور کامرانیوں کے لیے) جو کچھ مطلب تھا اس نے عطا فرما دیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ﴾ ” اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگا“ یعنی اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا کی جس کے ساتھ تمہاری آرزوئیں اور ضرورتیں وابستہ ہیں جو تم اپنی زبان حال یا زبان قال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہو۔ مثلاً مال مویشی، مختلف اقسام کے آلات وصناعات وغیرہ ﴿ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا﴾ ” اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو تم شمار نہ کرسکو۔“ یعنی تمہارا ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا تو کجا، تم ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے۔ ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ﴾ ” یقیناً انسان نہایت نادان، بہت بے شکرا ہے“ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے، کیونکہ وہ نہایت ظالم، معاصی کے ارتکاب کی جسارت کرنے والا، اپنے رب کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکروہی ادا کرسکتا ہے، جس کی اللہ تعالیٰ راہ نمائی کرے۔ تب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، اپنے رب کے حق کو پہچانتا ہے اور اسے قائم کرتا ہے۔ پس ان آیات کریمہ میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بہت سی اصناف مجمل اور مفصل طور پر بیان ہوئی ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کا ذکر اور اس کا شکر ادا کریں اور وہ ان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دن رات اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور اس سے دعا مانگتے رہیں جیسے ہر وقت بتکرار ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا فیضان رہتا ہے۔