سورة ابراھیم - آیت 27

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ ایمان والوں کو جمنے اور مضبوط رہنے والی بات کے ذریعہ سے جماؤ اور مضبوطی دیتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی، اور نافرمانوں پر (جماؤ اور مضبوطی کی) راہ گم کردیتا ہے۔ اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (اس کی حکمت کا فیصلہ یہی فیصلہ ہوا کہ ایسا کرے)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے جو کامل طور پر قلبی ایمان کو قائم کرتے ہیں۔ جو اعمال جوارح کو مستلزم ہے یہ اعمال اس ایمان کا ثمرہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کے اندر شبہات کے وارد ہونے کے وقت ہدایت اور یقین کے ذریعے سے ثبات اور استقامت عطا کرتا ہے اور جب شہوات پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قطعی اور پختہ ارادہ عطا کرتا ہے تب وہ خواہش نفس اور اس کی مراد پر اس امر کو مقدم رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آخرت میں، موت کے وقت دین اسلام اور خاتمہ بالخیر پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے وقت صحیح جواب کی توفیق عطا کرکے ثبات اور مضبوطی سے نوازتا ہے۔ جب میت سے پوچھا جاتا ہے ” تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ صحیح جواب کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے اور مومن جواب دیتا ہے ” میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔“ ﴿وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے۔“ یعنی دنیا وآخرت میں راہ صواب سے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ، قبر کے امتحان، قبر کے عذاب اور اس کی نعمت اور آرام پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ قبر کے امتحان، اس کی صفت وکیفیت، قبر کے عذاب اور اس کے آرام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت تواتر کے ساتھ نصوص واردہوئی ہیں۔