الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
الر۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر اتاری ہے تاکہ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے کہ غالب اور ستودہ خدا کی راہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے مخلوق کے فائدے کے لئے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت، اخلاق بد اور مختلف اقسام کے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر علم و ایمان اور اخلاق حسنہ کی روشنی میں لے جائے اور فرمایا ﴿بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ” ان کے رب کے حکم سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبوب مراد صرف اللہ تعالیٰ کے اراے اور اس کی مدد ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس آیت کر یمہ میں بندوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ اپنے رب سے مدد طلب کریں۔ پھر اللہ نے اس ” نور“ کی تفسیر بیان فرمائی جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ ” غالب اور قابل تعریف (اللہ) کے راستے کی طرف“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم والے گھر تک پہنچانے والا راستہ، جو حق کے علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچانے والے راستے کا ذکر کرنے کے بعد ﴿الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کوئی اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کوئی اعوان و انصار نہ ہوں، تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کے ساتھ غالب اور طاقتور ہے، وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش اور اچھے انجام کا مالک ہے۔ نیز یہ اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ، اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور نعوت جلال پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور جس نے اپنے بندوں کے لئے یہ راستہ مقرر کیا ہے، وہ غالب، قوت والا، اپنے اقوال و افعال اور احکام میں قابل ستائش ہے۔ وہ معبود ہے اور تمام عبادات کا مستحق ہے یہ عبادات اس صراط مستقیم کی منازل ہیں۔ اللہ تعالیٰ، تخلیق، رزق اور تدبیر کے اعتبار سے جس طرح آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں پر احکام دینی بھی نافذ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے فائدہ چھوڑ دے۔