أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹاتے ہوئے (اور ظالموں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے؟) اور اللہ ہے جو فیصلہ کرتا ہے، کوئی نہیں جو اس کا فیصلہ ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ﴾ ” کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں“ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور ظالموں کے استیصال کے ذریعے سے زمین کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔ نیز اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرکین کے شہروں کی فتح، ان کے مال اور بدن میں کمی کے ذریعے سے چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔۔۔ اس کی تفسیر میں بعض دیگر اقوال بھی ہیں۔ اس کے ظاہر معنی یہ ہیں۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان جھٹلانے والوں کی اراضی کی حالت یہ بنا دی کہ وہ فتح ہو رہی ہیں اور چھینی جا رہی ہیں، ان پر چاروں طرف سے مصائب ٹوٹ رہے ہیں، ان کی جان و مال میں کمی سے پہلے یہ ان کے لئے تنبیہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر ایسے عذاب نازل کر رہا ہے جسے کوئی رد کرنے پر قادر نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ﴾ ” اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے فیصلے کو کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں“ اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم شرعی، حکم کونی و قدری اور حکم جزائی داخل ہے۔ یہ تمام احکام، جن کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے، حکمت اور پختگی کے بلند ترین درجے پر پائے جاتے ہیں، جن میں کوئی نقص اور کوئی خلل نہیں۔ بلکہ یہ تمام احکام عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مبنی ہیں کوئی ان فیصلوں میں خامی اور نقص تلاش نہیں کرسکتا اور نہ ان میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ اس کے برعکس دیگر ہستیوں کے فیصلے کبھی حق و صواب کے موافق ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ ﴿وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ” اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔“ یعنی وہ عذاب کے مطالبے میں جلدی نہ مچائیں کیونکہ ہر وہ چیز جسے آنا ہے وہ قریب ہوتی ہے۔