سورة الرعد - آیت 22

وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے محبت کرتے ہوئے (ہر طرح کی ناگواریوں اور سختیوں میں) صبر کیا، نماز قائم کی، جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرتے رہے، پوشیدگی میں بھی اور کھلے طور پر بھی۔ انہوں نے برائی کے مقابلہ میں برائی نہیں کی، جب پیش آئے اچھائی ہی سے پیش آئے، تو (بلاشبہ) یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے عابقت کا گھر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَالَّذِينَ صَبَرُوا ﴾ ” اور جو صبر کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو مامورات کی تعمیل اور منہیات سے بچنے اور ان سے دور رہنے اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر عدم ناراضی کے ساتھ صبر کرتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ صبر صرف ﴿ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ﴾ ” اپنے رب کی رضا کی خاطر ہو“ کسی فاسد اغراض و مقاصد کے لئے نہ ہو۔ یہی وہ صبر ہے جو فائدہ مند ہے جو بندے کو اپنے رب کی رضا کی طلب اور اس کے قرب کی امید کا پابند اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتا ہے اور یہی وہ صبر ہے جو اہل ایمان کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے۔ وہ صبر جو بہت سے لوگوں میں مشترک ہوتا ہے اس کی غایت و انتہا استقلال اور فخر ہے یہ صبر نیک اور بد، مومن اور کافر، ہر قسم کے لوگوں سے صادر ہوسکتا ہے، صبر کی یہ قسم درحقیقت ممدوح نہیں ہے۔ ﴿وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ  ﴾ ” اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ یعنی وہ نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط اور ظاہری و باطنی تکمیل کے ساتھ قائم کرتے ہیں﴿وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً ﴾ ” اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ اور کفارہ اور نفقات مستحبہ داخل ہیں۔ یہ کھلے چھپے ان تمام مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں ضرورت تقاضا کرتی ہے۔ ﴿وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ  ﴾ ” اور وہ برائی کے مقابلے میں بھلائی کرتے ہیں“ یعنی جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ برے طریقے سے پیش نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ پس جو کوئی انہیں محروم کرتا ہے یہ اسے عطا کرتے ہیں، جو کوئی ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کردیتے ہیں، جو کوئی ان سے قطع تعلق کرتا ہے یہ اس سے جڑتے ہیں اور جو کوئی ان سے برا سلوک کرتا ہے یہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔۔۔ جب برا سلوک کرنے والوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی یہ کیفیت ہے تو اس شخص کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی کیفیت ہوگی جس نے ان کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا۔ ﴿أُولَـٰئِكَ  ﴾ ” یہی“ یعنی وہ لوگ جو ان صفات جلیلہ اور مناقبت جمیلہ کے حامل ہیں ﴿لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ ” انہی کے لئے آخرت کا گھر ہے۔