وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩
اور آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے (یعنی اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکے بغیر اسے چارہ نہیں) خوشی سے ہو یا مجبوری سے، اور (دیکھو) ان کے سایے صبح و شام (کس طرح گھٹتے بڑھتے اور کبھی ادھر کبھی ادھر ہوجایا کرتے ہیں)
یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کی مطیع اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے ﴿ طَوْعًا وَكَرْهًا ﴾ ” خوشی سے اور ناخوشی سے“ ( طَوْعًا ) اس شخص کے لئے جو اختیاری طور پر اللہ کے سامنے جھکتا اور اسے سجدہ کرتا ہے جیسے اہل ایمان اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتے ہیں ﴿كَرْ ھاً﴾ اس شخص کے لئے استعمال ہوا ہے جو تکبر کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا مگر خود اس کی فطرت اور اس کا حال اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴾ ” اور ان کی پرچھائیاں صبح اور شام“ یعنی تمام مخلوقات کے سائے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہر چیز کا سجدہ اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ ﴾(بنی اسرائیل:17؍44) ” اس جہان ہست و بود میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔“ جب صورتحال یہ ہے کہ تمام کائنات طوعاً وکرہاً اپنے رب کے سامنے سرافگندہ ہے تو معلوم ہوا کہ وہی الٰہ حقیقی اور وہی معبود حقیقی ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی الوہیت کے بطلان کا ذکر کرتے ہوئے دلیل دی ہے۔