رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
(پھر یوسف نے دعا کی) پروردگار ! تو نے مجھے حکومت عطا فرمائی اور باتوں کا مطلب اور نتیجہ نکالنا تعلیم فرمایا اے آسمان و زمین کے بنانے والے تو ہی میرا کارساز ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ دنیا سے جاؤں تو تیری فرماں برداری کی حالت میں جاؤں، اور ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جو تیرے نیک بندے ہیں۔
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو زمین میں مکمل اقتدار عطا کردیا اور ان کے والدین اور بھائیوں کی ملاقات کے ذریعے سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں، تو یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے، اس پر اس کا شکریہ ادا کرتے اور اسلام پر ثبات اور استقامت کی دعا کرتے ہوئے کہا : ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ﴾ ” اے رب تو نے مجھے بادشاہی سے حصہ دیا“ یہ انہوں نے اس لئے کہا تھا کہ وہ زمین کے خزانوں کے منتظم اور بادشاہ کے بہت بڑے وزیر تھے۔ ﴿وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ﴾ ” اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔“ یعنی تو نے مجھے آسمانی کتاب کی تفسیر اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا۔ ﴿فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا﴾ ” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی میرا کار ساز ہے دنیا اور آخرت میں، مجھے اسلام پر موت دے“ یعنی مجھے اسلام پر قائم اور ثابت قدم رکھ حتیٰ کہ اسلام ہی پر مجھے وفات دے۔ یہ دعا موت کے جلدی آنے کی دعا نہیں ہے۔ ﴿وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾ ” اور مجھے نیک بندوں میں داخل کردیجیے۔“ یعنی مجھے انبیاء و ابرار، اپنے چنے ہوئے اور بہترین بندوں میں شامل کر۔