قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
(یہ سن کر بھائی چونک اٹھے اور اب جو عزیز کی صورت اور آواز پر غور کیا تو ایک نیا خیال ان کے اندر پیدا ہوگیا) انہوں نے کہا کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ یوسف نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی (برائیوں سے) بچتا اور (مصیبتوں میں) ثابت قدم رہتا ہے تو اللہ (کا قانون یہ ہے کہ وہ) نیک عملوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔
انہوں نے پہچان لیا کہ جو شخص ان سے مخاطب ہے وہ یوسف علیہ السلام ہے اس لئے انہوں نے پوچھا : ﴿ أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَـٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا ۖ﴾ ” کیا آپ یوسف ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے“ کہ اس نے ہمیں ایمان، تقویٰ اور زمین میں اقتدار سے نوازا۔ یہ سب کچھ صبر اور تقویٰ کا ثمرہ ہے۔ ﴿ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِر﴾ ” بے شک جو شخص اللہ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے“ یعنی جو کوئی فعل حرام سے پرہیز کرتا ہے، آلام و مصائب پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے۔ ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” تو اللہ نیکو کاروں کا اجرضائع نہیں کرتا۔“ یہ تمام امور احسان کے زمرے میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال حسنہ کو ضائع نہیں کرتا۔