قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
(جب بنیامین کی بوری سے کٹورا نکل آیا تو) بھائیوں نے کہا اگر اس نے چوری کی تو یہ کوئی عجیب بات نہیں، اس سے پہلے اس کا (حقیقی) بھائی بھی چوری کرچکا ہے، تب یوسف نے (جس کے سامنے اب معاملہ پیش آیا تھا) یہ بات اپنے دل میں رکھ لی، ان پر ظاہر نہ کی (کہ میرے منہ پر مجھے چور بنا رہے ہو) اور (صرف اتنا) کہا کہ سب سے بری جگہ تمہاری ہوئی (کہ اپنے بھائی پر جھوٹا الزام لگا رہے ہو) اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اللہ اسے بہتر جاننے والا ہے۔
جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ معاملہ دیکھا، تو ﴿قَالُوا إِن يَسْرِقْ﴾ ” انہوں نے کہا، اگر اس )بھائی( نے چوری کی ہے“ تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ﴿فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ﴾ ” اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی“ ان کی مراد یوسف علیہ السلام تھے۔ ان کا مقصود خود اپنی براءت کا اظہار کرنا تھا۔ نیز یہ کہ بنیامین اور اس کے بھائی سے چوری صادر ہوئی ہے اور یہ دونوں ہمارے حقیقی بھائی نہیں ہیں۔ یہ ان کی طرف سے یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بنیامین کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش تھی۔ اس لئے یوسف علیہ السلام نے اس کے جواب کو اپنے دل میں رکھا۔ ﴿وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ﴾ ” اور اس کو ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا“ اس لیے ان کی اس بات پر کسی ایسے رد عمل کا اظہار نہ کیا جو انہیں ناگوار گزرے، بلکہ وہ اپنے غصے کو پی گئے اور تمام معاملے کو اپنے دل میں چھپالیا۔ ﴿ قَالَ ﴾ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے دل میں کہا : ﴿أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا﴾ ” تم بدتر ہو درجے میں“ کیونکہ تم نے ایک بے بنیاد بات پر ہماری مذمت کی ہے اور خود اس سے بھی بد تر اعمال کے مرتکب ہوئے ہو۔ ﴿وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ﴾ ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم بیان کرتے ہو۔“ ہماری بابت، جو تم ہمیں سرقہ سے متصف کرتے ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم چوری کے بہتان سے بری ہیں۔