إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
مگر ہاں (توبہ کا دروازہ ہر گناہ کے بعد کھلا ہوا ہے۔ پس) جن لوگوں نے اس گناہ سے توبہ کرلی اور اپنی (بگری) حالت ازسر نو نوار لی اور ساتھ ہی (احکام حق کو چھپانے کی گہ) بیان کرنے کا شیوہ اختیار کرلیا تو ایسے لوگوں کی توبہ ہم قبول کرلیتے ہیں۔ اور ہم بڑے ہی درگزر کرنے والے اور رحمت سے بخش دینے والے ہیں
﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ﴾” مگر جنہوں نے توبہ کی‘ یعنی جو ندامت کے ساتھ گناہ چھوڑ کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے ﴿وَاَصْلَحُوْا﴾ ” اور اپنی حالت درست کرلی۔“ یعنی اپنے فاسد عملوں کی اصلاح کرلی۔ پس صرف برے کام کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں، اس کی جگہ اچھے کام کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کتمان حق کے مرتکب کے لیے بھی صرف یہی کافی نہیں کہ اس نے یہ گناہ چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو بھی ظاہر کرے جس کو اس نے چھپایا تھا۔ پس یہی وہ شخص ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کا سبب لے کر توبہ کے لیے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ﴿ التَّوَّابُ ﴾” بڑا معاف کرنے والا۔“ ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ، گناہ کے بعد عفو و درگزر سے پیش آتا ہے جب وہ توبہ کرلیتے ہیں اور جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو روک لینے کے بعد، ان پر پھر احسان و نعمتوں کی بارش کردیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيْمُ﴾ اس ہستی کو کہتے ہیں جو عظیم اور بے پایاں رحمت سے متصف ہو جو ہر چیز کو محیط ہے۔ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے انہیں توبہ اور انابت کی توفیق بخشی پس انہوں نے توبہ کی اور وہ اس کی طرف پلٹے۔ پھر اس نے ان پر رحم کیا یعنی اپنے لطف و کرم سے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ اس شخص کا حکم ہے جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔