فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
پھر جب یوسف نے ان لوگوں کا سامان ان کی روانگی کے لیے مہیا کیا تو اپنے بھائی (بنیامین کی بوری میں اپنا کٹورا رکھ دیا) (تاکہ بطور نشانی کے اس کے پاس رہے) پھر ایسا ہوا کہ (جب یہ لوگ روانہ ہوئے اور شاہی کارندوں نے پیالہ ڈھونڈا اور نہ پایا تو ان پر شبہ ہوا اور) ایک پکارنے والے نے (ان کے پیچھے) پکارا، اے قافلہ والو ! (ٹھہرو) ہو نہ ہو تم ہی چور ہو۔
﴿فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ ﴾ ” پس جب تیار کردیا ان کے واسطے ان کا اسباب“ یعنی جب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں میں سے ہر ایک کو غلہ ناپ کر دے دیا، ان میں ان کا حقیقی بھائی بنیامین بھی شامل تھا۔ ﴿جَعَلَ السِّقَايَةَ ﴾ ” تو رکھ دیا پینے کا پیالہ“ اس سے مراد وہ پیالہ ہے جس میں پانی پیا جاتا ہے اور اس میں اناج وغیرہ بھی ناپا جاتا ہے ﴿فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ ﴾ یعنی پیالہ بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔ پھر جب انہوں نے اپنا سامان سمیٹ لیا اور وہ کوچ کرنے لگے تو ﴿أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ﴾ ” اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے قافلے والو ! تم تو چور ہو“ شاید اعلان کرنے والے کو حقیقت حال کا علم نہیں تھا۔