قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
باپ نے (یہ سن کر) کہا کیا میں اس کے لیے اسی طرح تمہارا اعتبار کروں جس طرح پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کرچکا ہوں؟ سو خدا ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔
﴿قَالَ ﴾ یعقوب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ﴾ ” کیا میں تمہارا اسی طرح اعتبار کروں جیسے اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملے میں اعتبار کیا تھا ؟“ یعنی یوسف علیہ السلام کی حفاظت کے بارے میں تم اپنی ذمہ داری کے التزام کا وعدہ اس سے پہلے بھی کرچکے ہو۔ بایں ہمہ تم نے اس کی حفاظت کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا، لہٰذا مجھے تمہارے اس عہد پر کوئی بھروسہ نہیں کہ تم اس کی حفاظت کا التزام کرو گے۔ مجھے تو بس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ ﴿فَاللَّـهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴾ ” سو اللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ میرے حال کو جانتا ہے مجھے امید ہے کہ وہ مجھ پر رحم کرے گا اس کی حفاظت کرکے اسے میرے پاس لائے گا۔ گویا انہوں نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے کے لئے اپنی گفتگو میں نرمی کا مظاہرہ کیا۔