سورة یوسف - آیت 46

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(چنانچہ وہ قید خانے میں آیا اور کہا) اے یوسف ! اے کہ مجسم سچائی ہے ! اس (خواب) کا ہمیں حل بتا کہ سات موٹی تازی گایوں کو سات دبلی پتلی گائیں نگل رہی ہیں، اور سات بالیں ہری ہیں سات سوکھی، تاکہ (ان) لوگوں کے پاس واپس جاسکوں (جنہوں نے مجھے بھیجا ہے) کیا عجب ہے کہ وہ (تمہاری قدرو منزلت) معلوم کرلیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس شخص نے کہا تھا : ﴿يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ ﴾ ’’اے یوسف علیہ السلام، اے سچے !“ یعنی اپنے اقوال و افعال میں بہت ہی سچے شخص ﴿ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ﴾ ”ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلاؤ، کہ سات موٹی گائیں، ان کو سات کمزور گائیں کھا جاتی ہیں اور سات ہری بالیاں، دوسری خشک بالیوں کو، تاکہ میں لوگوں کی طرف واپس جاؤں شاید ان کو معلوم ہو“ کیونکہ اس خواب نے ان لوگوں کو سخت پریشان کر رکھا ہے اور وہ اس خواب کی تعبیر جاننے کے لئے سخت بے تاب ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ سات موٹی تازی گایوں اور سات ہری بالیوں سے سات آئندہ سالوں کی سرسبزی و شادابی کی طرف اشارہ ہے اور سات لاغر اور کمزور گایوں اور سات سوکھی بالیوں سے شادابی کے بعد آنے ولای خشک سالی اور قحط کے ساتھ سالوں کی طرف اشارہ ہے۔ اس تعبیر کا پہلو غالباً یہ ہے۔۔۔ اللہ اعلم۔۔۔ چونکہ کھیتی کا دارو مدار شادابی اور خشک سالی پر ہے، جب شادابی آتی ہے تو کھیتیوں اور فصلوں کو طاقت ملتی ہے، وہ خوشنما نظر آتی ہیں، غلے کی بہتات ہوتی ہے، قحط سالی میں کھیتیوں کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ گیہوں کی بالیاں سب سے اچھی اور سب سے بڑی خوراک لئے ہوئے ہوتی ہیں، وجود مناسبت کی بنا پر یوسف علیہ السلام نے تعبیر بیان کی۔