قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ
درباریوں نے (غورو فکر کے بعد) کہا یہ پریشان خواب و خیالات ہیں (کوئی ایسی بات نہیں جس کا کوئی خاص مطلب ہو) ہم سچے خوابوں کا مطلب تو حل کرسکتے ہیں، لیکن) پریشان خوابوں کا حل نہیں جانتے۔
پس وہ سخت حیران ہوئے اور اس خواب کی کوئی تعبیر نہ کرسکے۔ کہنے لگے : ﴿أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ﴾ ” یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔“ یعنی یہ ایسا پریشان خواب ہے جس کا کوئی حاصل ہے نہ اس کی کوئی کوئی تعبیر۔ یہ ان کی اس بارے میں حتمی رائے تھی جس کے بارے میں وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے اور انہوں نے ایسی چیز کو عذر بنایا جو درحقیقت عذر ہی نہیں۔ پھر انہوں نے کہا : ﴿وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ ﴾ ” ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔“ یعنی ہم تو صرف خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔ رہے پریشان خواب جو شیطانی وسوسوں اور نفس کی خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں تو ہم ان کی تفسیر نہیں جانتے۔ پس انہوں نے جہالت، حتمی رائے کہ یہ پریشان خواب ہیں اور خودپسندی کو ایک جگہ جمع کردیا، کیونکہ انہوں نے یہ نہ کہا کہ ہم اس خواب کی تعبیر نہیں جانتے اور یہ ایسا رویہ ہے جو اہل دین اور عقل مندوں کو زیب نہیں دیتا، نیز یہ یوسف علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی ہے، کیونکہ اگر شروع ہی سے، بادشاہ کے اعیان سلطنت اور ان کے علماء کے سامنے یہ، خواب پیش ہونے اور ان کے اس کی تعبیر بتانے سے عاجز ہوئے بغیر، جناب یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتائی ہوتی تو ان کی تعبیر کی اتنی وقعت نہ ہوتی۔ مگر جب بادشاہ نے یہ خواب علماء اور اعیان سلطنت کے سامنے پیش کیا اور وہ اس کی تعبیر بتانے سے عاجز آگئے اور بادشاہ کو خواب نے بہت زیادہ فکر میں ڈال دیا تھا، پس جب یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتا دی تو ان کے ہاں یوسف علیہ السلام کی قدر اور وقعت بہت بڑھ گئی۔ یہ اس واقعہ کی نظیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر علم کے ذریعے سے جناب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر کی۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا، وہ جواب نہ دے سکے، پھر آدم علیہ السلام سے سوال کیا، انہوں نے فرشتوں کو ہر چیز کا نام بتا دیا اور اس طرح فرشتوں پر آدم کی فضیلت ثابت ہوگئی۔ اسی طرح قیامت کے روز، اللہ کی مخلوق میں بہترین ہستی، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوگی، اللہ مخلوق کو الہام کرے گا اور تمام مخلوق جناب آدم، پھر جناب نوح، پھر جناب ابراہیم، پھر جناب موسیٰ اور پھر جناب عیسیٰ (علیہم السلام) سے شفاعت کی درخواست کرے گی مگر وہ معذرت کردیں گے، پھر تمام مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی استدعا کرے گی جسے قبول کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے ” ہاں میں شفاعت کروں گا، میں ہی اس کا مستحق ہوں“۔۔۔ اور یوں آپ تمام مخلوق کی شفاعت کریں گے اور اس طرح وہ اس مقام محمود پر فائز ہوں گے جس پر اولین و آخرین رشک کریں گے۔ پاک ہے وہ ذات جس کا لطف و کرم مخفی ہے، اور وہ اپنے اولیاء و اصفیا اور اپنے خاص بندوں کو نہایت دقیق طریقے سے اپنے فضل و احسان سے نوازتی ہے۔