وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور یوسف نے جس آدمی کی نسبت سمجھا تھا کہ نجات پائے گا اس سے کہا، اپنے آقا کے پاس جب جاؤ تو مجھے یاد رکھنا (یعنی میرا حال اس سے ضرور کہہ دینا) لیکن (جب تعبیر کے مطابق اس نے نجات پائی تو) شیطان نے یہ بات بھلا دی کہ اپنے آقا کے حضور پہنچ کر اسے یاد کرتا۔ پس یوسف کئی برس تک قید خانہ میں رہا۔
﴿وَقَالَ ﴾ یعنی یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا ﴾ ” اس شخص سے جس کی بابت انہوں نے گمان کیا تھا کہ وہ بچے گا“ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب پلا رہا ہے۔﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ ﴾ ” اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا“ یعنی اس کے پاس میرے قصے اور میرے معاملے کا ذکر کرنا شاید وہ نرم پڑ جائے اور مجھے اس قید خانے سے نکال دے۔ ﴿ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ ﴾ ” لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا۔“ یعنی قید سے نجات پانے والے اس شخص کو شیطان نے اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرا دیا۔ [فاضل مصنف کے برعکس اکثر مفسرین نے (ذکر ربہ) میں رب سے آقا، یعنی بادشاہ وقت مراد لیا ہے، یعنی نجات پانے والے کو شیطان نے بھلا دیا اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خواہش کے مطابق بادشاہ سے آ کر ان کے جیل میں محبوب رہنے کا ذکر نہیں کیا۔ (ص۔ ی)] اور نیز ہر اس چیز کو فراموش کرا دیا جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا باعث تھی اور انہی چیزوں میں یوسف علیہ السلام کا تذکرہ بھی تھا جو اس چیز کے مستحق تھے کہ بہترین اور کامل ترین بھلائی کے ساتھ ان کو بدلہ دیا جاتا۔ یہ اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کا حکم پورا ہو۔ ﴿فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴾ ” پس ٹھہرے رہے یوسف علیہ السلام جیل میں کئی سال“ (بِضْعَ ) کا اطلاق تین سے لے کر نوتک کے عدد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات برس تک قید میں رہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ اس کا حکم پورا ہو اور یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالنے کا اذن دے تو اس نے یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالنے، ان کی شان بلند کرنے اور ان کی قدر و منزلت نمایاں کرنے کے لئے ایک سبب مقدر کردیا۔۔۔ وہ تھا بادشاہ کا خواب دیکھنا۔