قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
تب (عزیز کی بیوی) بولی تم نے دیکھا؟ یہ ہے وہ آدمی جس کے بارے میں تم نے مجھے طعنے دیے تھے، ہاں بیشک میں نے اس کا دل اپنے قابو میں لینا چاہا تھا مگر وہ بے قابو نہ ہوا، اور (اب اسے سنا کے کہے دیتی ہوں کہ) اگر اس نے میرا کہا نہ مانا (اور اپنی ضد پر اڑا رہا) تو ضرور ایسا ہوگا کہ قید کیا جائے اور بے عزتی میں پڑے۔
جب ان عورتوں کے سامنے یوسف علیہ السلام کا ظاہری جمال متحقق ہوگیا اور یوسف علیہ السلام ان کو بہت ہی اچھے لگے، تو عزیز مصر کی بیوی پر ان کا بہت کچھ عذر ظاہر ہوگیا۔ پھر اس نے چاہا کہ وہ ان عورتوں کو یوسف علیہ السلام کے باطنی جمال۔۔۔ یعنی عفت کامل۔۔۔ کا نظارہ کروائے چنانچہ اس عورت نے کسی چیز کے پروا کئے بغیر، کیونکہ آج عورتوں کی طرف سے ملامت منقطع ہوگئی تھی یوسف علیہ السلام سے اپنی شدید محبت کا اعلان کرتے ہوئے کہا : ﴿فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ﴾” یہ وہی ہے کہ طعنہ دیا تھا تم نے مجھ کو اس کے بارے میں اور میں نے پھسلایا تھا اس کو اس کے جی سے، پس اس نے اپنے کو بچا لیا“ یعنی اس نے اپنے آپ کو بچا لیا گویا وہ اب بھی یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کے موقف پر قائم تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے قراری، محبت اور شوق وصال میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ لہٰذا اس نے ان عورتوں کی موجودگی میں یوسف علیہ السلام سے کہا ﴿وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ ﴾ ” اگر اس نے وہ کام نہ کیا، جس کا حکم میں اس کو دے رہی ہوں، تو یہ یقیناً قید کردیا جائے گا اور بے عزت ہوگا“ تاکہ وہ اس دھمکی کے ذریعے سے جناب یوسف علیہ السلام سے اپنا مقصد حاصل کر کے سکے۔