وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
اور یاد رکھو یہ ضرور ہونا ہے کہ ہم تمہارا امتحان لیں۔ خطرات کا خوف، بھوک کی تکلیف، مال وجان کا نقصان، پیداوار کی تباہی، وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی۔ پھر جو لوگ صبر کرنے والے انہیں (فتح و کامرانی کی) بشارت دے دو
اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں کو مصائب و محن کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ سچے اور جھوٹے، صابر اور بے صبر کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ اپنے بندوں کے معاملے میں یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، کیونکہ اگر اہل ایمان ہمیشہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں انہیں کبھی مصائب و محن کا سامنا نہ ہو تو فساد واقع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خیر اہل شر میں سے علیحدہ ہوں۔ یہ آزمائش کا فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کا وہ ایمان زائل نہیں ہوتا جو انہیں عطا کیا گیا ہے اور نہ آزمائش انہیں دین سے ہٹاتی ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے گا ﴿ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ﴾” کسی قدر خوف سے‘‘ یعنی دشمنوں کے خوف سے﴿وَالْجُوعِ﴾ ” اور بھوک سے“ یعنی بھوک اور دشمنوں کے خوف کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ انہیں ضرور آزمائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل بھوک اور خوف میں مبتلا کردیا تو وہ ہلاک ہوجائیں گے اور آزمائش اور امتحان ہلاک کرنے کی غرض سے نہیں آتا، بلکہ اس کا مقصد پاک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ﴿ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ﴾” اور کچھ مالوں کی کمی سے“ اس میں وہ تمام کمی اور گھاٹا شامل ہے جو اہل ایمان کو آفات سماوی، سیلاب یا سمندر میں غرق ہونے، ظالم حکومت کے مال چھین لینے اور راہزن ڈاکوؤں کے ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے پیش آتاہے۔ ﴿وَالْأَنفُسِ﴾’’ اورجانوں کی کمی سے“ اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں کو فوت کر کے، خود بندہ مومن یا اس کے کسی عزیز کو بیماری لاحق کر کے ان کو آزماتا ہے۔﴿وَالثَّمَرَاتِ ﴾” اور پھلوں کی کمی سے“ ژالہ باری، سردی، آگ لگنے، آفات سماوی اور ٹڈی دل کے ذریعے سے غلہ جات، کھجوروں، سبزیوں اور تمام پھلدار درختوں کو نقصان پہنچا کر ہم ضرور آزمائیں گے۔ ان تمام آزمائشوں کا آنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر نے ان کے بارے میں خبر دی ہے اور یہ آزمائشیں اسی طرح واقع ہوئیں۔ جب یہ مصائب و محن واقع ہوئے، تو لوگ دو اقسام میں منقسم ہوگئے۔ (١) بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے۔ (2) صبر کرنے والے۔ بے صبر شخص کو دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محبوب چیز سے محروم ہونا اور وہ اس مصیبت کا وجود ہے۔ دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑی چیز سے محروم ہونا، یعنی اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ثواب کا حاصل نہ کرنا چنانچہ خسارہ، حرماں نصیبی اور ایمان میں کمی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ صبر، رضا اور شکر سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے ناراضی حاصل ہوتی ہے جو شدت نقصان پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ان مصائب و محن کے وقت صبر سے نوازا اور اس نے اپنے آپ کو قولاً اور فعلاً اللہ پر اظہار برہمی سے روکے رکھا۔ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کی امید رکھی اور اسے یہ بھی علم ہے کہ صبر کرنے سے اسے جو ثواب حاصل ہوگا، وہ اس مصیبت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کا اسے سامنا ہے، بلکہ یہ مصیبت اس کے حق میں نعمت ہے، کیونکہ یہ مصیبت اس کے لیے اس بھلائی اور فائدے کے حصول کا باعث بنی ہے جو اس مصیبت سے زیادہ بہتر ہے۔ پس اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور ثواب کا مستحق قرار پایا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ﴾” اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔“ یعنی انہیں خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے ان کو پورا پورا اجر دے گا۔ پس اہل صبر وہ لوگ ہیں جن کو عظیم بشارت اور بہت بڑے انعام سے نوازا گیا ہے۔