سورة یوسف - آیت 21

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اہل مصر میں سے جس شخص نے یوسف کو قافلہ والوں سے مول لیا تھا وہ (اسے لے کر اپنے گھر آیا اور) اپنی بیوی سے بولا اسے عزت کے ساتھ رکھو، عجب نہیں یہ ہمیں فائدہ پہنچائے ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ اور (دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کا سرزمین مصر میں قدم جما دیا اور مقصود یہ تھا کہ اسے باتوں کا نتیجہ و مطلب نکالنا سکھا دیں، اور اللہ کو جو معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی قافلہ یوسف علیہ السلام کو لے کر مصر چلا گیا اور وہاں جا کر ان کو فروخت کردیا اور عزیز مصر نے انہیں خرید لیا۔ جب عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو خریدا تو وہ ان کو اچھے لگے، چنانچہ اس نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اپنی بیوی کو وصیت کرتے ہوئے کہا﴿اَکْرِمِیْ مَثْوٰیہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا﴾ ’’اس کو عزت سے رکھ، شاید یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں۔‘‘ یعنی یہ ہمیں یا تو اس طرح فائدہ دے گا جس طرح خدمت کے ذریعہ سے غلام فائدہ دیتے ہیں یا ہم اس سے اس انداز سے فائدہ اٹھائیں گے جیسے اولاد سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات اس نے اس لیے کہی کہ شاید ان کے ہاں اولاد نہ تھی۔﴿ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی طرح ہم نے جگہ دی یوسف کو اس ملک میں۔‘‘ یعنی جس طرح ہم نے نہایت آسان کردیا کہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کو خرید لے اور آپ کو عزت و تکریم دے، تو اسی طریقے سے ہم نے یوسف علیہ السلام کو اقتدار عطا کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔﴿ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ﴾ ’’اور اس واسطے کہ اس کو سکھائیں کچھ ٹھکانے پر بٹھانا باتوں کا۔‘‘ یعنی انہیں کوئی شغل اور کوئی ہم و غم لاحق نہ رہا سوائے حصول علم کے اور یہ چیز ان کے لیے علم الاحکام اور علم التعبیر وغیرہ کے حصول کا باعث بن گئی۔﴿ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہ﴾یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم نافذ ہے کوئی ہستی اسے باطل کرسکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر غالب آسکتی ہے۔﴿ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اسی وجہ سے ان سے اللہ تعالیٰ کے احکام قدریہ کے مقابلے میں افعال سرزد ہوتے ہیں حالانکہ وہ انتہائی عاجز اور انتہائی کمزور ہیں، کوئی مقابلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ پر غالب نہیں آسکتا۔