سورة یوسف - آیت 9

اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس (بہتر یہ ہے کہ) یوسف کو مار ڈالیں، یا کسی جگہ پھینک آئیں، تاکہ ہمارے باپ کی توجہ ہماری ہی طرف رہے اور اس کے نکل جانے کے بعد ہمارے سارے کام سدھر جائیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿اقْــتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا ﴾’’یوسف کو مار ڈالو یا اس کو پھینک دو کسی زمین میں‘‘ یعنی کہیں دور علاقے میں لے جا کر اس کو باپ کی نظروں سے دور کردو جہاں وہ اپنے باپ کو نظر نہ آسکے۔ اگر تم نے ان دونوں امور میں سے کسی ایک پر عمل کرلیا۔﴿ یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ﴾’’تو خالص ہوجائے گی تمہارے باپ کی توجہ تمہارے لیے۔‘‘ یعنی وہ تمہارے لیے فارغ ہوگا اور تمہارا باپ تمہارے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے گا، کیونکہ وہ اس وقت یوسف کی محبت میں مشغول ہے تمہاری محبت کے لیے اس کے پاس فراغت نہیں۔ ﴿وَتَکُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ ﴾ ’’اور ہوجانا تم اس کے بعد‘‘ یعنی یہ کام کرنے کے بعد۔﴿ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ﴾ ’’نیک لوگ‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرلینا اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگ لینا۔ انہوں نے گناہ کے صدور سے پہلے ہی توبہ کا عزم کیا، تاکہ گناہ کا ارتکاب آسان ہو، اس کی برائی زائل ہو اور اس گناہ پر آمادہ کرنے کے لیے ایک دوسرے میں حوصلہ پیدا کریں۔