وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور تیرے پروردگار نے پہلے سے ایک بات نہ ٹھہرا دی ہوتی (یعنی یہ کہ دنیا میں ہر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق مہلت عمل ملتی ہے) تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا، اور ان لوگوں کو اس کی نسبت شبہ ہے کہ حیرانی میں پڑے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عطا کی، جس کو تورات کہا جاتا ہے جو اس کے اوامر و نواہی پر ان کے اتفاق و اجتماع کی موجب ہے۔ مگر اس کے باوجود تورات سے نسبت رکھنے والوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا جس نے ان کے عقائد اور ان کی دینی جمعیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ﴿وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ’’اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی‘‘ ﴿ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ﴾’’تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا‘‘ یعنی ظالم پر عذاب نازل ہوچکا ہوتا۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو قیامت تک کے لیے مؤخر کردے اور یہ لوگ شک و شبہ ہی میں مبتلا رہیں۔ جب ان کا اپنی کتاب کے ساتھ یہ حال ہے، تو قرآن جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرح وحی کیا ہے یہود کے ایک گروہ کا یہ رویہ تعجب خیز نہیں ہے کہ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بارے میں شک و ریب میں مبتلا ہیں۔