قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور (اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ) اچھی (سے اچھی) روزی عطا فرما رہا ہو (تو پھر بھی میں چپ رہوں اور تمہیں راہ حق کی طرف نہ بلاؤں) اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمہیں روکتا ہوں اس سے تمہیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں۔ (میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں اسی پر عمل بھی کرتا ہوں ٩ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال کی کوشش کروں، میرا کام بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوں۔
﴿قَالَ ﴾ جناب شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! بھلا بتاؤ، اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے“ یعنی خواہ مجھے اس وحی کی صحت پر یقین اور اطمینان ہو ﴿وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ﴾ ” اور اس نے روزی دی مجھ کو اچھی روزی“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے رزق کی مختلف اصناف عطا کر رکھی ہیں ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾ ” اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد میں خود وہ کام کروں جس سے میں تمہیں روکتا ہوں“ پس میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ناپ تول میں کمی سے منع کروں اور خود اس برائی کا ارتکاب کرتا رہوں اس کو سب سے پہلے خود ترک کرتا ہوں۔ ﴿إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ﴾ ” میں تو اصلاح کرنی چاہتا ہوں جہاں تک ہوسکے“ یعنی اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں کہ تمہارے احوال کی اصلاح ہو اور تمہارے منافع درست ہوں اور اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل کرنا میرا مقصد نہیں۔ حسب استطاعت میں کام کرتا ہوں اور چونکہ اس میں ایک قسم کے تزکیہ نفس کا دعویٰ ہے اس لئے قول کے ذریعے سے اس کو دور کیا ﴿وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ﴾ ” اور سب صرف اللہ کی توفیق سے ہے“ یعنی بھلائی کے کام کرنے اور شر سے بچنے کی توفیق مجھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ اس میں میری قوت و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” میں اسی پر توکل کرتا ہوں۔“ یعنی میں اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کے کافی ہونے پر مجھے اعتماد ہے۔ ﴿وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ ” اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ اس نے مختلف اقسام کی عبادات کا جو مجھے حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لئے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور ان دو امور کے ذریعے سے بندہ مومن کے احوال درست ہوتے ہیں : ١۔ اپنے رب سے مدد طلب کرنا ٢۔ اور اس کی طرف رجوع کرنا۔۔۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ﴾(ہود:11؍123) ” اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کر۔“ اور فرمایا : ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾(الفاتحة:1؍4) ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔