قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے کاموں پر تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی رحمت اور برکتیں تجھ پر ہوں اے اہل خانہ ابراہیم ! (اس کے فضل و کرم سے یہ بات کچھ بعید نہیں ہے) بلاشبہ اسی کی ذات ہے جس کی ستائشیں کی جاتی ہیں اور وہی ہے جس کے لیے ہر طرح کی بڑائیاں ہیں۔
﴿قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ ﴾ ” انہوں نے کہا، کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوئی تعجب نہیں، اس لئے کہ اس کی مشیت تامہ ہر شے میں نافذ ہے اس کی قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی چیز کو انہونی اور نادر نہ سمجھا جائے خاص طور پر اس مبارک گھر والوں کے اس معاملے میں جس کی تدبیر اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ ﴿رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ ﴾ ” اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کا احسان اور اس کی برکات ہیں، یعنی احسان اور بھلائی میں اضافہ اور خیر الہٰی کا نزول ہمیشہ رہے گا ﴿عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ﴾ ” تم پر اے گھر والو ! بیشک وہ تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ صفات حمیدہ کا مالک ہے، اس کی تمام صفات، صفات کمال ہیں۔ اس کے تمام افعال قابل تعریف ہیں، کیونکہ اس کے تمام افعال احسان، جود، بھلائی، حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ ﴿ مَجِيد ﴾ اور ﴿ مَجَد﴾ سے مراد اس کی صفات کی عظمت اور وسعت ہے وہ صفات کمال کا مالک ہے، اس کی ہر صفت کامل، تام اور عام ہے۔