وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تمہیں بسا دیا، پس چاہیے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رکوع ہو کر رہو۔ یقین کرو، میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے، اور (ہر ایک کی) دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔
﴿وَإِلَىٰ ثَمُودَ ﴾ ” اور ثمود کی طرف۔“ یعنی نے ہم ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ ثمود، عاد ثانیہ کے نام سے معروف ہیں جو وادی القریٰ اور الحجر کے علاقے میں آباد تھے۔ ﴿أَخَاهُمْ ﴾ ” ان کے بھائی۔“ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿صَالِحًا ﴾ ” صالح علیہ السلام کو“ جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تھا جو ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ ﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور دین کو اس کے لئے خالص کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ نہ آسمان والوں میں سے اور نہ اہل زمین میں سے۔ ﴿هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴾ ” اسی اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا“ ﴿وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا ﴾ ” اور اس میں تمہیں بسایا“ یعنی تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا، تمہیں زمین میں تمکن و اقتدار عطا کیا، تم عمارتیں بناتے ہو، باغات لگاتے ہو اور کھیتیاں اگاتے ہو، جو چاہتے ہو کاشت کرتے ہو، اس سے منفعت حاصل کرتے ہو اور اسے اپنے مصالح اور مفاد میں استعمال کرتے ہو۔ جس طرح ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ﴿ فَاسْتَغْفِرُوهُ ﴾ ” پس اسی سے مغفرت طلب کرو۔“ یعنی تم سے کفر، شرک اور دیگر جو گناہ صادر ہوئے ہیں ان کی بخشش طلب کرو اور ان گناہوں کو چھوڑ دو۔ ﴿ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ﴾ ” پھر اس کے حضور توبہ کرو۔“ یعنی خالص توبہ اور انابت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ ﴿إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾ ” بے شک میرا رب نزدیک اور (دعا کو)قبول کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ اس شخص کے قریب ہے جو اس کو سوال کرنے کے لئے پکارتا ہے یا عبادت کے لئے پکارتا ہے وہ اس کو اس کا سوال عطا کرکے اور اس کی دعا قبول کرکے اور اس پر جلیل ترین ثواب عطا کرتے ہوئے اس کی پکارا کا جواب دیتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب کی دو قسمیں ہیں۔ قرب عام اور قرب خاص۔ قرب عام سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے علم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا، قرب کی یہ نوع اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾(ق:50؍16) ” اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔“ میں مذکور ہے۔ قرب خاص سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں، اللہ سے سوال کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے قریب ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ﴾(العلق:96؍19) ” سجدہ کر اور اس کا قرب حاصل کر۔” میں قرب کی اسی نوع کا ذکر ہے۔ اس آیت کریمہ میں نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد : ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ﴾ (البقرۃ:2؍186) ”جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں )تو ان سے کہہ دیں( کہ میں ان کے قریب ہوں اور پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“ میں اس قرب کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم، ان کی دعاؤں کو قبول کرنے اور ان کی مرادیں پوری کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنیٰ ( اَلقَرِيب ) اور ( اَلمُجِيب) کو مقرون )ساتھ ساتھ( بیان کیا ہے۔