قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ
(نوح نے) عرض کیا خدایا ! میں اس بات سے تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی بات کا سوال کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور رحم نہ فرمایا تو میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں گا جو تباہ حال ہوئے۔
اس وقت نوح علیہ السلام اپنی دعا پر سخت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا : ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا، تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا“ پس مغفرت اور رحمت بندے کو خسارے والے لوگوں میں شامل ہونے سے بچاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نوح علیہ السلام کو معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے (کافر) بیٹے کی نجات کے لئے دعا کرنا حرام ہے اور ان کا بیٹا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔ ﴿وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴾ ” ظالموں کے بارے میں مجھ سے گفتگو نہ کرنا کہ وہ سب غرق ہوں گے۔“ بلکہ نوح علیہ السلام کے نزدیک دونوں امور متعارض ہوگئے اور سمجھے کہ ان کا بیٹا ﴿أَهْلَكَ ﴾ کے حکم میں داخل ہے اور بعد میں ان پر واضح ہوا کہ ان کا بیٹا ان لوگوں میں شامل ہے جن کے لئے بخشش کی دعا اور گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے۔