وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور (پھر اللہ کا) حکم ہوا اے زمین ! اپنا پانی پی لے، اور اے آسمان ! تھم جا، اور پانی کا چڑھاؤ اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا نامرادی اس گروہ کے لیے ہے جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔
﴿وَ﴾ ” اور“ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سیلاب میں غرق کردیا اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا ﴿قِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ ﴾ ” حکم دیا گیا، اے زمین ! نگل لے اپنا پانی“ یعنی وہ تمام پانی نگل لے جو تجھ سے خارج ہوا تھا اور تیری سطح پر آسمان سے نازل ہوا ﴿يَا سَمَاءُ أَقْلِعِي﴾ ” اور اے آسمان ! تھم جا“ پس زمین اور آسمان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی۔ زمین نے اپنا پانی نگل لیا اور آسمان تھم گیا۔ ﴿وَغِيضَ الْمَاءُ ﴾ ” اور سکھا دیا گیا پانی“ یعنی پانی زمین میں جذب ہوگیا ﴿وَقُضِيَ الْأَمْرُ ﴾ ” اور ہوچکا کام“ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور اہل ایمان کی نجات کا فیصلہ چکا دیا گیا۔ ﴿وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ﴾ ” اور وہ ٹھہر گئی کوہ جودی پر۔“ یعنی کشتی ” جودی“ پر لنگر انداز ہوگئی جو سر زمین موصل میں ایک معروف پہاڑ ہے۔ ﴿وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اور کہا گیا، دوری ہو ظالم لوگوں کے لئے“ ان کی ہلاکت پر لعنت، اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار ان کے پیچھے لگا دی گئی جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔