وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
لوگو یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں، میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے، اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ہی ذلیل ہوں گے مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں، انہیں بھی اپنے پروردگار سے) ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔
﴿وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ﴾ ” اے میری قوم میں اس کے بدلے تم سے مال و زر کا خواہاں نہیں ہوں۔“ یعنی میں تمہیں دعوت دینے پر تم سے کوئی مال اجر کے طور پر نہیں مانگتا جسے تم بوجھ سمجھو۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے“ اور گویا کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ کمزور بے مایہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے اٹھا دیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا : ﴿وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انہیں نکالنے والا نہیں ہوں۔“ یعنی میرے لئے مناسب ہے نہ مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں ان کو دھتکاردوں، بلکہ میں نہایت عزت و اکرام اور تعظیم کے ساتھ ان کا استقبال کروں گا۔ ﴿إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ ﴾ ” وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں“ پس وہ انہیں ان کے ایمان اور ان کے تقویٰ کے بدلے نعمتوں بھری جنت عطا کرے گا۔ ﴿وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴾ ’’لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم نادان لوگ ہو“ کیونکہ تم مجھے اولیاء کو دھتکار نے اور اپنے سےدور کرنے کا حکم دیتے ہو اور تم نے حق کو اس لئے رد کردیا ہے، کیونکہ وہ حق کی اتباع کرتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ تم حق کا ابطال کرنے کے لئے اس قسم کا استدلال کرتے ہو کہ میں تم جیسا ایک بشر ہوں اور یہ کہ ہمیں تم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔