وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
اور اگر ان پر عذاب کا نازل کرنا ایک مقررہ مدت تک ہم تاخیر میں ڈال دیں تو یہ ضرور کہنے لگیں : کون سی بات ہے جو اسے روک رہی ہے؟ سو سن رکھو جس دن عذاب ان پر آئے گا تو پھر کسی کے ٹالے ٹلنے والا نیہں، اور جس بات کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے (تم دیکھو گے کہ) وہی انہیں آلگی۔
﴿وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ﴾” اگر ہم روکے رکھیں ان سے عذاب ایک معلوم مدت تک“ یعنی ایک وقت مقررہ تک، جس کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دن بہت دیر سے آئے گا، تب وہ ظلم و جہالت کی بنا پر کہتے ہیں : ﴿مَا يَحْبِسُهُ ﴾ ” کون سی چیز اس (عذاب) کو روکے ہوئے ہے؟“ اس آیت کا مضمون ان کا رسول کو جھٹلانا ہے۔ وہ ان پر عذاب کے فوری طور پر نہ آنے کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھوٹا ہونے پر دلیل بناتے ہیں جنہوں نے ان کو عذاب واقع ہونے کی وعید سنائی ہے۔ پس یہ کتنا بعید استدلال ہے ! ﴿أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ ﴾ ” دیکھو جس روز عذاب ان پر نازل ہوگا تو پھر ٹلے گا نہیں“ کہ وہ اپنے معاملے میں غور کرسکیں ﴿ وَحَاقَ بِهِم ﴾ ” اور ان کو گھیر لے گا“ یعنی نازل ہوگا ان پر ﴿مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ” وہ (عذاب) جس کے ساتھ یہ استہزا کیا کرتے تھے۔“ کیونکہ وہ اسے نہایت حقیر سمجھتے تھے حتیٰ کہ جو ان کو عذاب کی وعید سناتا تھا وہ قطعی طور پر اسے جھو ٹاسمجھتے تھے۔