وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے معافی کے طلبگار ہو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ، (ایسا کرو گے تو) وہ تمہیں ایک وقت مقرر تک زندگی کے فوائد سے بہت اچھی طرح بہرہ مند کرے گا، اور (اپنے قانو کے مطابق) ہر زیادہ (عمل) کرنے والے کو اس کی سعی مزید کا اجر بھی دے گا، لیکن اگر تم نے روگردانی کی تو میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک بڑا دن نمودار نہ ہوجائے۔
﴿ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ﴾ ” اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو“ یعنی ان گناہوں کی بخشش مانگو جو تم سے صادر ہوئے ہیں۔ ﴿ثُمَّ تُوبُواإِلَيْهِ﴾ ” پھر اس کی طرف توبہ کرو۔“ یعنی اپنی عمر میں جن گناہوں سے سابقہ پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ذریعے سے توبہ کرو اور جن امور کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، انہیں چھوڑ کر ان امور کی طرف لوٹو جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو توبہ و استغفار پر مترتب ہوتے ہیں۔ فرمایا : ﴿يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا﴾ ” وہ تمہیں متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا“ یعنی وہ تمہیں رزق عطا کرے گا جس سے تم استفادہ کرو گے اور منتفع ہو گے۔ ﴿إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” ایک وقت مقرر تک“ یعنی تمہاری وفات تک ﴿ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ﴾ ” اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی دے گا۔“ یعنی وہ تم میں سے اہل احسان کو اپنے فضل وکرم سے نوازے گا جو چیز انہیں پسند ہے وہ حاصل ہوگی جو ناپسند ہے وہ ان سے ہٹا دی جائے گی۔ یہ ان کی نیکی کی جزا ہے۔ ﴿وَإِن تَوَلَّوْا ﴾ ” اگر تم نے روگردانی کی۔“ یعنی اگر تم نے اس دعوت سے روگردانی کی جو میں نے تمہیں پیش کی ہے، بلکہ تم نے اعراض کیا ہے اور بسا اوقات دعوت کو جھٹلایا ہے۔ ﴿فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ ﴾ ” تو میں ڈرتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے“ اور وہ ہے روز قیامت، جس میں اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا۔