سورة یونس - آیت 108

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے، پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اسی کے آگے آئے گی۔ میں تم پر نگہبان نہیں ہوں (کہ زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جاؤں اور پھر اس سے نکلنے نہ دوں)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بنا بریں، جب اللہ تعالیٰ نے واضح دلیل بیان کردی، تو اس کے بعد فرمایا : ﴿قُلْ ﴾ چونکہ دلیل و برہان واضح ہوگئی اس لئے اے رسول فرما دیجئے ! ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ﴾ ” اے لوگو ! تمہارے رب کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے“ یعنی تمہارے پاس سچی خبر آگئی ہے جس کی تائید دلائل و براہین سے ہوتی ہے جس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی شک نہیں اور یہ خبر تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے پہنچی ہے، جس کی تمہارے لئے سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے تم پر قرآن نازل کیا، جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے یہ قرآن مختلف انواع کے احکام، مطالب الٰہیہ اور اخلاق حسنہ پر مشتمل ہے جن میں تمہاری تربیت کا بہترین سامان موجود ہے۔ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ پس گمراہی سے ہدایت کا راستہ واضح ہوگیا اور کسی کے لئے کوئی شبہ باقی نہ رہا۔ ﴿فَمَنِ اهْتَدَىٰ﴾ ” اب جو کوئی راہ پر آئے“ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کے ذریعے سے راہ ہدایت اپنا لی۔ وہ یوں کہ اس نے حق معلوم کرلیا اور پھر اسے اچھی طرح سمجھ لیا اور دیگر ہر چیز پر اسے ترجیح دی ﴿فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ﴾ ” پس وہ راہ پاتا ہے اپنے بھلے کو“ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے نیاز ہے۔ بندوں کے اعمال کے ثمرات انہی کی طرف لوٹتے ہیں ﴿وَمَن ضَلَّ﴾ ” اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے“ یعنی جو حق کے علم یا اس پر عمل سے روگردانی کر کے ہدایت کی راہ سے بھٹک جائے ﴿فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ﴾ ” تو وہ بہکا پھرے گا اپنے برے کو“ یعنی وہ اپنے لئے گمراہی اختیا ر کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ صرف اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ﴿وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ﴾ ” اور میں تم پر داروغہ نہیں“ کہ تمہارے اعمال کی نگرانی کروں اور ان کا حساب کتاب رکھوں۔ میں تو تمہیں کھلا ڈرانے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہارا نگران اور وکیل ہے۔ جب تک تم اس مہلت کی مدت میں ہو، اپنے آپ پر نظر رکھو۔