وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اور نہ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اللہ کی نشانیاں جھٹلائیں اور نیتجہ یہ نکلا کہ نامراد ہوئے۔
﴿ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، پس آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ ان دونوں آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم کے بارے میں) دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ 1۔ قرآن مجید میں شک کرنا اور اس کے بارے میں جھگڑنا۔ 2۔ اور اس سے بھی شدید تر چیز اس کی تکذیب کرنا ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی واضح آیات ہیں جن کو کسی لحاظ سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا اور تکذیب کا نتیجہ خسارہ ہے اور وہ ہے منافع کا بالکل معدوم ہونا اور یہ خسارہ دنیا و آخرت کے ثواب کے فوت ہونے اور دنیا و آخرت کے عذاب سے لاحق ہوتا ہے۔ کسی چیز سے روکنا دراصل اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔ تب قرآن کی تکذیب سے منع کرنا درحقیقت قرآن کی تصدیق کامل، اس پر طمانیت قلب اور علم و عمل کے اعتبار سے اس کی طرف توجہ دینے کا نام ہے اور یوں بندہ مومن نفع کمانے والوں میں شامل ہوجاتا ہے جو جلیل ترین مقاصد، بہترین خواہشات اور کامل ترین مناقب کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس خسارے کی نفی ہوجاتی ہے۔