فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ﴾ ”اگر آپ اس کی بابت شک میں ہیں جو ہم نے آپ کی طرف اتارا“ کہ آیا یہ صحیح ہے یہ غیر صحیح ہے؟ ﴿فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ﴾ ”تو ان سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں“ یعنی انصاف پسند اہل کتاب اور راسخ العلم علماء سے پوچھئے وہ اس چیز کی صداقت کا اقرار کریں گے جس کی آپ کو خبر دی گئی ہے اور وہ یہ بھی اعتراف کریں گے کہ وہ اس ہدایت کے موافق ہے جو ان کے پاس ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بہت سے لوگوں نے، بلکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، آپ سے عناد رکھا اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب سے اپنی صداقت پر گواہی لیں اور ان کو گواہی کو اپنی دعوت پر حجت اور اپنی صداقت پر دلیل بنائیں، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ (1)جب شہادت کی اضافت کسی گروہ، کسی مذہب کے ماننے والوں یا کسی شہر کے لوگوں کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ان میں عادل اور سچے ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ خواہ اکثریت ہی میں کیوں نہ ہوں، ان کی شہادت معتبر نہیں، کیونکہ شہادت، عدالت اور صدق پر مبنی ہوتی ہے اور یہ مقصد بہت سے ربانی احبار کے ایمان سے حاصل ہوگیا تھا، مثلاً عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب اور بہت سے دیگر اہل کتاب جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں ایمان لاتے رہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر اہل کتاب کی شہادت در اصل ان کی کتاب تورات، جس کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، کے بیان پر مبنی ہے جب تورات میں ایسا مواد موجود ہو جو قرآن کی موافقت اور اس کی تصدیق کرتا ہو اور اس کی صحت کی شہادت دیتا ہو، تب اگر اولین و آخرین تمام اہل کتاب اس کے انکار پر متفق ہوجائیں، تو ان کا یہ انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن میں قادح نہیں۔ (3) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنے لائے ہوئے قرآن کی صداقت پر اہل کتاب سے استشہاد کریں اور ظاہر ہے کہ یہ حکم علی الاعلان دیا گیا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل کتاب میں بہت سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے ابطال کے بڑے حریص تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسا مواد موجود ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو رد کرسکتا، تو وہ ضرور اسے پیش کرتے، چونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی اس لئے دشمنوں کا عدم جواب اور مستجیب کا اقرار اس قرآن اور صداقت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ (4) اکثر اہل کتاب ایسے نہ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو رد کردیا ہو، بلکہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ تھے جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کرلیا تھا اور انہوں نے اپنے اختیار سے آپ کی اطاعت کی، کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو روئے زمین میں اکثر لوگ اہل کتاب تھے۔ اسلام پر زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ شام، مصر، عراق اور ان کے آس پاس کے علاقوں کے اکثر لوگ مسلمان ہوگئے، یہ ممالک اہل کتاب کے مذہب کا گڑھ تھے۔ اسلام قبول کرنے سے صرف وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جن کے پاس سرداریاں تھیں اور جنہوں نے اپنی سرداریوں کو حق پر ترجیح دی تھی، نیز وہ لوگ باقی رہ گئے جنہوں نے ان سرداروں کی پیروی کی جو حقیقی طور پر نہیں، بلکہ برائے نام اس دین کی طرف منسوب تھے، مثلاً فرنگی، جن کے دین کی حقیقت یہ ہے کہ دہریے ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین کے مذاہب کے دائرے سے خارج ہیں اور صرف ملکی رواج کے طور پر اور اپنے باطل کے ملمع کی خاطر دین مسیح کی طرف منسوب ہیں۔ جیسا کہ ان کے حالات کی معرفت رکھنے والے جانتے ہیں۔ ﴿لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ﴾ ” تحقیق آگیا آپ کے پاس حق“ جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں ﴿مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ﴾ ”آپ کے رب کی طرف سے، پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ﴾ (الاعراف : 7؍2) ” یہ کتاب ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے، پس آپ کے دل میں کوئی تنگی نہیں آنی چاہیے۔“