وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور پھر ایسا ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتار دیا، یہ دیکھ کر فرعون اور اس کے لشکر نے پیچھا کیا، مقصود یہ تھا کہ ظلم و شرارت کریں، لیکن جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا تو اس وقت پکار اٹھا میں یقین کرتا ہوں کہ اسی ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں بھی اسی کے فرمانبرداروں میں ہوں۔
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ﴾ ”اور پار کردیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے“ اور یہ اس طرح ہوا کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ سمند پر اپنا عصا ماریں، انہوں نے سمندر پر عصا مارا تو سمندر کا پانی پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور بنی اسرائیل ان پر چلتے ہوئے پار نکل گئے۔ فرعون اور اس کے پیچھے پیچھے اس کے لشکر سمند میں داخل ہوگئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم مکمل طور پر سمند سے باہر آگئے اور اس کی قوم مکمل طور پر سمندر میں داخل ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا اور سمندر کے تلاطم نے فرعون اور اس کی فوجوں کو اپنی گرفت میں لے کر غرق کردیا اور بنی اسرائیل یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ جب فرعون ڈوبنے لگا اور اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تو پکار اٹھا ﴿ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ﴾ ”میں ایمان لایا اس بات پر کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے“ کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ﴿وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ” اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین اور ان تمام امور کو مانتا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے۔