قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی، تو اب تم (اپنی راہ میں) جم کر کھڑے ہوجاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو (میرا طریق کار) نہیں جانتے (اور اس لیے صبر نہیں کرسکتے)
﴿قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا ﴾ ” اللہ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہوئی“۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں تثنیہ کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے اور وہ شخص جو دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہتا ہے، وہ دعا کرنے والے کی دعا میں شریک ہوتا ہے۔ ﴿فَاسْتَقِيمَا﴾ ” پس دونوں ثابت قدم رہنا“ یعنی دونوں اپنے دین پر ثابت قدم اور اپنی دعوت پر جمے رہو۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” اور بے علم لوگوں کے راستے پر نہ چلنا۔“ یعنی جہلاء کے راستے کی پیروی نہ کرو جنہوں نے صراط مستقیم سے انحراف کر کے جہنم کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیں اور انہوں نے اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ فرعون کے لشکر ضرور ان کا پیچھا کریں گے۔ فرعون نے تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دیئے جو اعلان کرتے ہوئے ﴿ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ﴾ ”یہ لوگ“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ﴿لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ﴾ ﴿الشعراء : 26؍54۔56﴾ ” ایک قلیل سی جماعت ہے۔ یہ ہمیں ناراض کر رہے ہیں اور ہم پوری طرح بساز و سامان تیار ہیں۔“ پس فرعون نے دور اور نزدیک سے تمام لشکر جمع کر لئے اور اس نے اپنے لشکر لے کر ظلم و زیادتی کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم پر ظلم اور زمین میں زیادتی کرتے ہوئے انہیں گھروں سے نکالا۔ جب ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے اور گناہ جڑ پکڑ لیں تو عذاب کا انتظار کرو۔