سورة البقرة - آیت 138

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(ہدایت اور نجات کی راہ کسی رسمی اصطباغ یعنی رنگ دینے کی محتاج نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا شیوہ ہے) یہ اللہ کا رنگ دینا ہے اور بتلاؤ اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ دینا ہوسکتا ہے؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرلو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمہارا رنگ اور تمہاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمہاری صفت بن جائے گا تو یہ تمہارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمہاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طور پر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمہیں دنیاوی اور آخروی سعادت حاصل ہوجائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند متربہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿صِبْغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمہارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔ آپ اس بندہ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں، پس بندہ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کا خوف اور اس سے امیدرکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہوجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا، اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بد کرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔ اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہوجاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ” عبادت“ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندہ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا یعنی ” عَابِدُوْنَ لَہ “ کی بجائے ” لَہ عَابِدُوْنَ “ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل (عَابِدُوْنَ) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔