ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ
پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔
﴿ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ﴾ ” پھر بھیجے ہم نے اس کے بعد“ یعنی نوح علیہ السلام کے بعد ﴿رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ﴾ ” کئی پیغمبران کی قوموں کی طرف“ یعنی جھٹلانے والوں کی طرف، جو ان کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے اور انہیں ہلاکت کے اسباب سے ڈراتے تھے۔ ﴿فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” پس وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے“ یعنی ہر نبی نے اپنی دعوت کی تائید میں ایسے دلائل پیش کئے، جو ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتے تھے۔ ﴿فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ﴾ ” پس ان سے یہ نہ ہوا کہ وہ اس بات پر ایمان لے آئیں جسے وہ اس سے پہلے جھٹلا چکے تھے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت سزا دی جب ان کے پاس رسول آیا اور انہوں نے اس کی تکذیب میں جلدی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگیا۔ وہ اس سے قبل ایمان لانے پر متمکن تھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ” ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے اور جس طرح وہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے، نشانیاں آنے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے۔“ بنا بریں یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ﴾ ” اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں“ پس ان کے دلوں میں کسی قسم کی بھلائی داخل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ہی حق کو ٹھکرا کر۔۔۔۔۔ جب حق ان کے پاس آیا اور اس کو اولین مرتبہ جھٹلا کر۔۔۔۔ اپنی جانوں پر ظلم کیا۔