لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی (کامرانی و سعادت کی) بشارت ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی اللہ کے فرمان اٹل ہیں، کبھی بدلنے والے نہیں، اور یہی سب سے بڑی فیروز مندی ہے جو انسان کے حصے میں آسکتی ہے۔
اسی لئے فرمایا : ﴿لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ ﴾ ” ان کے لئے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“ دنیا کے اندر بشارت سے مراد، ثنائے حسن، مومنوں کے دلوں میں محبت و مودت، سچے خواب، بندہ مومن کا اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے بہرہ ور ہونا، اللہ تعالیٰ کا بہترین اعمال و اخلاق کے راستوں کو آسان کردینا اور بندے کو برے اخلاق سے دور کردینا اور آخرت کی بشارتوں میں اولین بشارت یہ ہے کہ روح قبض کئے جانے کے موقع پر ان کو بشارت دی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ (حم السجدہ : 41؍30) ” بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور نہ غم زدہ ہو اور جنت کی خبر سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔“ اور قبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی خوشخبری دی جائے گی اور قیامت کے روز نعمتوں بھری جنت میں دخول اور دردناک عذاب سے نجات کے ساتھ اس خوشخبری کا اتمام ہوگا۔ ﴿لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کے کلمات بدلتے نہیں“ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ حق ہے جس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں، کیونکہ وہ اپنے قول میں سچا ہے اور اس کی مقرر کی ہوئی قضا و قدر میں کوئی شخص اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ ﴿ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ ”یہی ہے بڑی کامیابی“ کیونکہ یہ تمام محذورات سے نجات اور ہر محبوب چیز کے حصول میں ظفریابی پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” فوز“ کو حصر کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ فوز و فلاح اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے سواکسی کے لئے نہیں۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ بشارت ہر خیر و ثواب کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ایمان اور تقویٰ پر مرتب فرمایا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کو تقیید کے ساتھ نہیں، بلکہ مطلق بیان کیا ہے۔