سورة یونس - آیت 60

وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جن لوگوں کی جراتوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے نام پر جھوٹ بول کر افترا پردازی کر رہے ہیں انہوں نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے (کیا وہ سمجھتے ہیں اللہ کی جانب سے کوئی پرسش ہونے والی نہیں؟) حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے لیے بڑا ہی فضل رکھا ہے (کہ اس نے جزائے عمل کو آخرت پر اٹھا رکھ ہے اور دنیا میں سب کو مہلت عمل دے دی ہے) لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس کا شکر نہیں بجا لاتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” اور کیا خیال ہے اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کا قیامت کے دن“ یہ کہ ان کو سزا دے گا اور ان پر عذاب نازل کرے گا‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّـهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ﴾ (الزمر : 39؍60) ” اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا‘ آپ قیامت کے روز دیکھیں گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہو رہے ہوں گے۔“ ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ ﴾ ” بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت زیادہ فضل و احسان کرنے والا ہے۔ ﴿  وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔“ یا تو اس کی صورت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتے یا وہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی میں نافرمانیوں میں استعمال کرتے ہیں یا ان میں سے بعض نعمتوں کو حرام ٹھہرا کر ان کو ٹھکرا دیتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور پھر اس نعمت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ کھانے والی تمام اشیاء میں اصل حلت ہے جب تک کہ اس کی حرمت پر شرعی حکم وارد نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر نکیر فرمائی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس رزق کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نازل کیا۔