وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔
﴿وَ﴾ ” اور“ جب قیامت برپا ہوگی ﴿ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ﴾ اگر ہو ہر گناہ گار کے پاس جس نے کفر و معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا ﴿ مَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ زمین میں ہے“ یعنی زمین میں جو سونا چاندی وغیرہ ہے، تو وہ سب کا سب اپنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے فدیہ میں دے دے۔ ﴿ لَافْتَدَتْ بِهِ﴾ ” تو وہ ضرور فدیے میں دے دے۔“ مگر یہ فدیہ دینا اس کے کسی کام نہ آئے گا، کیونکہ نفع و نقصان اور ثواب و عذاب تو نیک اور برے اعمال پر منحصر ہے۔ ﴿وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور چھپے چھپے پچھتائیں گے وہ جب دیکھیں گے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا دل ہی دل میں اپنے اعمال پر پچھتائیں گے مگر اب رہائی کا کوئی وقت نہیں ہوگا۔ ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ﴾ ” اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔“ یعنی کامل انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ جس میں کسی پہلو سے بھی ظلم و جور نہیں ہوگا۔