وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿ وَيَسْتَنبِئُونَكَ﴾ ” اور آپ سے دریافت کرتے ہیں۔“ یہ مکذبین تحقیق و تبیین اور طلب ہدایت کے لئے نہیں، بلکہ عناد و نکتہ چینی کے قصد سے آپ سے پوچھتے ہیں ﴿ أَحَقٌّ هُوَ ﴾ ” کیا آیا یہ سچ ہے؟“ یعنی کیا یہ بات صحیح ہے کہ انسانوں کے مرنے کے بعد قیامت کے روز انہیں دوبارہ زندہ کر کے جمع کیا جائے گا۔ پھر ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اچھے اعمال کا بدلہ اچھا ہوگا اور برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا۔ ﴿قُلْ﴾ ” کہہ دیجئے !“ اس کی صحت پر قسم اٹھا کر اور واضح دلیل کے ذریعے سے اس پر استدلال کرتے ہوئے کہہ دیجئے ! ﴿ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ﴾ ” قسم ہے میرے رب کی، یہ یقیناً حق ہے“ یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴾ ” اور تم عاجز نہ کرسکو گے۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو دوبارہ اٹھانے سے عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں تمہیں پیدا کیا ہے جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے اسی طرح وہ دوبارہ تمہیں پیدا کرسکتا ہے، تاکہ وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے۔