وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ
اور ان میں کچھ ایسے ہیں جو تیری طرف تکتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ تجھے سمجھ کر دیکھتے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں) پھر کیا تو اندھے کو راہ دکھادے گا، اگرچہ اسے کچھ سوجھ بوجھ نہ پڑتا ہوں؟
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے راستے کو مسدودہونے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ہے نظر کا راستہ، چنانچہ فرمایا ﴿وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ﴾ ”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔“ اور ان کا آپ کی طرف دیکھنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور نہ آپ کو کوئی راحت دے سکتا ہے۔ پس جس طرح آپ اندھوں کو راہ نہیں دکھا سکتے جو بصارت سے محروم ہیں اسی طرح آپ بہروں کی بھی راہ نمائی نہیں کرسکتے۔ جب ان کی عقل، سماعت اور بصارت، جو حصول علم اور معرفت حقائق کا ذریعہ ہیں، خرابی کا شکار ہوجائیں تب ان کے لئے حق تک پہنچنے کا کون سا راستہ ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد : ﴿وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ﴾ دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال، آپ کے طریقوں، آپ کے اخلاق اور آپ کے اعمال کو دیکھنا آپ اور آپ کی دعوت کی صداقت پر دلیل مہیا کرتا ہے اور یہ نظر، صاحب بصیرت کو دیگر دلائل سے مستغنی کردیتی ہے۔