سورة یونس - آیت 36

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ان کے معبود ان باطل میں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں‘وہ معنوی اور فعلی اوصاف موجود نہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جائے، بلکہ اس کے برعکس یہ معبودان باطل نقائص سے متصف ہیں جو ان کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہیں، تب وہ کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی معبود قرار دیتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کو خوش نما بنا دینا شیطان کا کام ہے، یہ قبیح ترین بہتان اور سب سے بڑی گمراہی ہے، لیکن یہی اس کا دل پسند اعتقاد بن گیا ہے اور وہ اسی کو حق سمجھتا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ﴾ ” اور نہیں پیروی کرتے ان کے اکثر لوگ“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنے گھڑے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں ﴿ إِلَّا ظَنًّا ۚ﴾ ” مگر گمان کی۔“ یعنی وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے شریکوں کو نہیں پکارتے، کیونکہ اصل میں عقلاً و نقلاً اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں، یہ لوگ محض اپنے ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں ﴿ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾ ” اور بے شک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا‘‘ پس انہوں نے ان کو معبود کے نام سے موسوم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی عبادات بھی کرنے لگے ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ﴾ (النجم : 53؍23) ” وہ تو صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے گھڑ لئے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔“ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾ ” بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ ان کے افعال کو خوب جانتا ہے اور وہ ان افعال پر انہیں سخت سزا دے گا۔