فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
پھر (دیکھو) جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک (اپنا عہد و پیمان بھول جاتے ہیں) اور ناحق ملک میں سرکشی و فساد کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سرکشی کا وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑنے والا ہے۔ یہ دنیا کی (چند روزہ) زندگی کے فائدے ہیں، سو اٹھا لو، پھر تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر اانا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ جو کچھ دنیا میں کرتے رہے اس کی حقیقت کیا تھی۔
﴿فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ﴾ ” پس جب اللہ نے ان کو نجات دے دی، تو اسی وقت شرارت کرنے لگے زمین میں ناحق۔“ یعنی وہ اس سختی کو جس میں وہ مبتلا تھے، ان دعاؤں کو جو وہ مانگتے رہے تھے اور ان وعدوں کو جو انہوں نے اپنے اوپر لازم کئے تھے، فراموش کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی ہستی انہیں ان سختیوں سے نجات دے سکتی ہے نہ ان کی تنگی دور کرسکتی ہے۔ پس انہوں نے اپنی فراخی اور کشادگی میں عبادت کو اللہ کے لئے خالص کیوں نہ کیا جس طرح انہوں نے سختی میں اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کیا تھا مگر اس بغاوت اور سرکشی کا وبال انہیں پر پڑے گا۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اے لوگو ! تمہاری شرارت تمہی پر پڑے گی، نفع اٹھا لو دنیا کی زندگی کا“ یعنی اللہ تعالیٰ سے سرکشی و بغاوت اور اس کے لئے اخلاص سے دور بھاگنے میںت ان کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ دنیا کے چند ٹکڑے اور اس کا مال و جاہ اور معمولی سے فوائد حاصل ہوں جو بہت جلد ختم ہوجائیں گے، سب کچھ ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تم اسے چھوڑ کر یہاں سے کوچ کر جاؤ گے۔ ﴿ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ ﴾ ” پھر ہمارے پاس ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے“ یعنی قیامت کے روز ﴿فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ” پھر ہم تمہیں بتلا دیں گے جو کچھ کہ تم کرتے تھے“ اس آیت کریمہ میں ان لوگون کو ان کے اپنے ان اعمال پر جمے رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔